Misfortune Happens Because Of Your Own Action

 

Misfortune Happens Because Of Your Own Action

         مَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ‌ وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ سَيِّئَةٍ فَمِنۡ نَّـفۡسِكَ‌ ؕ


        Whatever good happens to you is from Allah; and whatever misfortune smites you is because of your own action. [4:79]

اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے

A. Whatever is happening in the world, whether it is a human being or someone else, it is coming into existence by the will of Allah. Look at the human being, whether he commits any good or evil, the power, intelligence and ability behind his every action is not his personal but a gift from Allah. His body and soul are the blessings of Allah. Everything he has is created by his master. In this sense, whatever he does, he does it with the strength, ability and intelligence given by Allah. In this sense, it can be said with respect to every action of a human that apparently its doer is man, but in reality its doer is Allah. Because he would not have provided the resources for it or had not given him time to be used, then this act would never have come into being. Keeping this in mind, it can be said that whatever happens in the world is done by Allah.
  B. If a person intends to do something good, then Allah creates resources for him, and if he intends to do something evil, then the causes are created for him. But when a person does good, Allah is pleased and bestows His pleasure because it is a requirement of His mercy. But when a person does evil, even though his causes are created by Allah and he is able to do evil with the grace given by Allah, but Allah is angry with him. Therefore, He will reward the good and punish the bad.
  C. Since goodness comes into being through His mercy and is the cause of His pleasure, it is attributed to Allah and blessings from Allah descend upon it. Although evil comes into existence through His grace, it does not require His mercy. Rather, it is only the result of His decision that He has given man a freedom that He will provide the means for doing whatever he wants to do. And there will be no obstacle in his way. Therefore he attributes good to himself and evil to the doer of evil. Because it has come into being through the efforts of man and his decision. The requirement of Allah's mercy was not supported by it. But he did not stop because stopping would have deprived him of his freedom and the order of reward and punishment would have become a reality.
  If these cases are considered, then it is not difficult to understand why it is said that everything happens from the side of Allah and then why the good is attributed to Allah and the evil to the human soul.

ا۔ اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے

دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا فاعل چاہے انسان ہو یا کوئی اور وہ اللہ کی مشیت سے وجود میں آرہا ہے۔ انسان ہی کو دیکھ لیجیے وہ چاہے کسی اچھائی کا ارتکاب کرے یا برائی کا اس کے ہر عمل کے پیچھے جو قوت ‘ ذہانت اور صلاحیت کارفرما ہے وہ اس کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔ خود اس کا جسم و جان اللہ کی عنایت ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے مالک نے پیدا کیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اللہ کی دی ہوئی قوت ‘ صلاحیت اور ذہانت سے کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان کے ہر عمل کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر اس کا فاعل انسان ہے لیکن حقیقت میں اس کا فاعل اللہ ہے۔ کیونکہ وہ اس کے لیے وسائل فراہم نہ کرتا یا اس کو بروئے کار آنے کی مہلت نہ دیتا تو یہ فعل کبھی وجود میں نہ آسکتا۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔

 ب۔ انسان کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے وسائل پیدا فرما دیتے ہیں اور کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب پیدا کردیے جاتے ہیں۔ لیکن جب انسان نیکی کرتا ہے تو اللہ خوش ہوتا ہے اور اپنی خوشنودی سے نوازتا ہے کیونکہ یہ اس کی رحمت کا اقتضاء ہے۔ لیکن جب انسان برائی کرتا ہے اگرچہ اس کے اسباب اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں اور وہ اللہ کی دی ہوئی مہلت سے برائی کرنے کے قابل ہوتا ہے ‘ لیکن اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نیکی پر جزاء دے گا اور برائی پر سزا دے گا۔

 ج۔ نیکی چونکہ اس کی رحمت سے وجود میں آتی اور اس کی خوشنودی کا سبب بنتی ہے اس لیے اس کا انتساب اللہ کی طرف ہوتا ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے عنایات کا نزول ہوتا ہے۔ برائی اگرچہ اس کی مہلت سے وجود میں آتی ہے لیکن وہ اس کی رحمت کا اقتضاء نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ صرف اس کے اس فیصلے کا نتیجہ ہے کہ اس نے انسان کو ایک آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اس کے لیے اسباب فراہم کر دے گا۔ اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ نیکی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور برائی کو برائی کرنے والے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ انسان کی کوشش اور اس کے فیصلے سے وجود میں آئی ہے۔ اللہ کی رحمت کا اقتضاء اس کی تائید میں نہیں تھا۔ لیکن روکا اس لیے نہیں گیا کہ روکنے سے اس کی آزادی سلب ہوجاتی اور جزا اور سزا کا ترتب خلاف حقیقت ٹھہرتا۔

 ان مقدمات پر اگر غور کرلیا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ بات کیوں کہی جاتی ہے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور پھر اچھائی کہ جس کی نسبت اللہ کی طرف اور برائی کی نسبت نفس انسانی کی طرف کیوں کی جاتی ہے


Comments