Wishing Second Chance
In our world, most of us gets second chance in studies,
exams, businesses, jobs or day to day life. Beside our daily routine, we often
gets intuition from our innerself to choose the correct path which will lead us
to salvation. Many of us suppress this instinct and choose the path which gives
us temporary satisfaction.
The fate of those who deny the Qur'an is being described. He
said that some of their evildoers listen to your words and the words you
presented, but not to understand and accept them, but to debate and discuss
something that they can use as an excuse to argue with you. Their hearts and
their ears have been sealed because of their misdeeds, so they can no longer
accept it. Do not think that if a miracle is shown to them according to their
demand, they will accept it and then believe in this Quran. No, if this world
will see the miracles of the world, when they will do the same, because their
denial and the original cause of their denial will always remain. They have no
intention to listen and understand. After hearing everything, they come to you
with their sleeves rolled up to argue and say what has been kept in this
Qur'an, the stories of the previous ones and the stories of the previous ones!
! He said that in this way they are preventing others from it and they are also
making arrogant excuses from it, but rest assured, they are not spoiling
anything for God or you, rather they are throwing themselves into the pit of
destruction. But as yet the end of which they are being warned has not come
before them, they do not realize it. If only you could see the time when they
will face their end, and see that when they are standing on the edge of
hellfire, they will say, Oh, I wish we were returned to this world to confirm
the Qur'an and the verses of our Lord. Do not deny and be among the believers.
He said that he is also a liar in his confession. If they were to be returned,
they would do what they were prevented from doing because their denial was not
because the real truth was not clear to them. They knew that the Prophet is
true, that the Qur'an is right, that punishment and punishment are to be done,
but the love of the world, the veils of pride and envy did not allow their eyes
to open, now if they go to the world, as before against the testimony of the
heart. They have been denying the truth in the same way they will deny it again
and will call this observation more and more a nightmare.
•
وَلَوۡ تَرٰٓى اِذۡ
وُقِفُوۡا عَلَى النَّارِ فَقَالُوۡا يٰلَيۡتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ
بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
•
کاش تم اس
وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں
گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی
نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں
• If only
you could (be there to) see when they will be made to stand by the Fire, and
they will say, :Would that we were sent back, then we would not reject the
signs of our Lord, and would join the believers. [6:27]
قرآن
کی تکذیب کرنے والے سرہنگوں کا انجام بیان ہورہا ہے۔ فرمایا کہ ان کے کچھ اشرار تمہاری
باتیں اور تمہاری پیش کردہ کلام سنتے تو ہیں لیکن سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے نہیں
بلکہ بحث وجدال کے لیے کہ کوئی ایسی بات ہاتھ آئے جس کو بہانہ بنا کر تم سے کٹ حجتی
کرسکیں۔ ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر ان کی بداعمالیوں کے سبب سے مہر ہوچکی ہے اس
وجہ سے اب یہ اس کو قبول نہیں کرسکتے۔ یہ نہ خیال کرو کہ ان کی طلب کے مطابق اگر ان
کو معجزہ دکھا دیا جائے تو اس کو مان لیں گے اور پھر اس قرآن پر ایمان لائیں گے۔ نہیں،
اگر یہ دنیا جہان کے معجزے بھی دیکھ لیں گے جب یہ اسی طرح کٹ حجتی کریں گے اس لیے کہ
ان کے انکار اور ان کی تکذیب کی اصل علت جب بھی باقی رہے گی۔ ان کے اندر بات کے سننے
اور سمجھنے کا کوئی ارادہ ہی موجود نہیں ہے۔ چناچہ سب کچھ سن کر تمہارے پاس جھگڑنے
کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں اس قرآن میں رکھا ہی کیا ہے، اگلوں
کی داستانیں اور پچھلوں کے فسانے ! ! فرمایا کہ اس طرح یہ دوسروں کو بھی اس سے روک
رہے ہیں اور خود بھی اس سے متکبرانہ اعراض کر رہے ہیں لیکن اطمینان رکھو، نہ یہ خدا
کا کچھ بگاڑ رہے ہیں نہ تہارا، بلکہ یہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت کے گڑھے میں جھونک رہے
ہیں لیکن ابھی چونکہ وہ انجام ان کے سامنے نہیں آیا ہے جس سے ان کو خبردار کیا جا رہا
ہے ہے اس وجہ سے ان کو اس کا احساس نہیں ہے۔ اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے جب یہ اپنے
انجام سے دوچار ہوں گے تو دیکھتے کہ جب یہ دوزخ کے کنارے پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں
گے، اے کاش ہم پر دنیا میں لوٹائے جائیں کہ قرآن کی تصدیق کریں اور اپنے رب کی آیتوں
کی تکذیب نہ کریں اور اہل ایمان میں سے بنیں۔ فرمایا کہ وہ اپنے اس اعتراف میں بھی
جھوٹے ہیں۔ اگر وہ پھر لوٹائے جائیں تو وہی کریں گے جس سے وہ روکے گئے ہیں اس لیے کہ
ان کی تکذیب کی علت یہ نہیں تھی کہ اصل حقیقت ان پر واضح نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ
پیغمبر سچا ہے، قرا ان حق ہے، جزا و سزا شدنی ہے لیکن حب دنیا، غرور اور حسد کے حجابات
نے ان کی آنکھیں کھلنے نہ دیں، اب اگر دنیا میں جائیں گے تو جس طرح دل کی شہادت کے
خلاف پہلے حق کو جھٹلاتے رہے ہیں اسی طرح پھر اس کو جھٹلائیں گے اور اس مشاہدے کو بھی
زیادہ سے زیادہ ایک ڈراؤنا خواب قرار دے لیں گے۔
Comments
Post a Comment